تیرے قدموں کی آہٹ کو ترسا ہوں
میں بھی تیرا بھولا ہوا اک رستا ہوں
بیتے لمحوں کے جھونکے جب آتے ہیں
پل دو پل کو میں پھر سے کھل اٹھتا ہوں
مجھ سے مژدہ نئی رتوں کا پاؤ گے
یارو میں اس پیڑ کا انتم پتا ہوں
شاید تم بھی اب نہ مجھے پہچان سکو
اب میں خود کو اپنے جیسا لگتا ہوں
آج کے کالے سائے کل تک پھیلیں گے
میرے بچو میں اس بات سے ڈرتا ہوں
تم بھی کیسے ڈھونڈ سکو گے اب مجھ کو
میں خود اپنے آپ سے اوجھل رہتا ہوں
سایوں کی خواہش نے مجھے جلایا ہے
اب میں ان کے نام سے تپنے لگتا ہوں
مجھ سے مل کر کس کو یقین اب آئے گا
میں بھی تیرا ٹوٹا ہوا اک رشتہ ہوں
غزل
تیرے قدموں کی آہٹ کو ترسا ہوں
آزاد گلاٹی