خلائے ذہن کے گنبد میں گونجتا ہوں میں
خود اپنے عہد گزشتہ کی اک صدا ہوں میں
سمیٹ لاتا ہوں موتی تمہاری یادوں کے
جو خلوتوں کے سمندر میں ڈوبتا ہوں میں
تمہیں بھی مجھ میں نہ شاید وہ پہلی بات ملے
خود اپنے واسطے اب کوئی دوسرا ہوں میں
جو دے سکو تو خنک سائے دو محبت کے
خیال و خواب کی دنیا میں جل رہا ہوں میں
وہ خود مجھی میں کہیں کھو گیا نہ ہو آزادؔ
جسے خلائے زمانہ میں ڈھونڈتا ہوں میں

غزل
خلائے ذہن کے گنبد میں گونجتا ہوں میں
آزاد گلاٹی