اداس بیٹھا دیے زخم کے جلائے ہوئے
انہیں میں سوچ رہا ہوں جو اب پرائے ہوئے
مجھے نہ چھوڑ اکیلا جنوں کے صحرا میں
کہ راستے یہ ترے ہی تو ہیں دکھائے ہوئے
گھرا ہوا ہوں میں کب سے جزیرۂ غم میں
زمانہ گزرا سمندر میں موج آئے ہوئے
کبھی جو نام لکھا تھا گلوں پہ شبنم سے
وہ آج دل میں مرے آگ ہے لگائے ہوئے
زمانہ پھول بچھاتا تھا میری راہوں میں
جو وقت بدلا تو پتھر ہے اب اٹھائے ہوئے
حیا کا رنگ وہی ان کا میرے خواب میں بھی
دبائے دانتوں میں انگلی نظر جھکائے ہوئے
میں تم سے ترک تعلق کی بات کیوں سوچوں
جدا نہ جسموں سے انظرؔ کبھی بھی سائے ہوئے
غزل
اداس بیٹھا دیے زخم کے جلائے ہوئے
عتیق انظر