نہ مل سکا تری لہروں میں بھی قرار مجھے
سمندر اپنی تہوں میں ذرا اتار مجھے
ہوا کے پاؤں کی آہٹ گلاب کی چیخیں
سنی ہیں میں نے عدالت ذرا پکار مجھے
میں بار بار ترے واسطے بکھر جاؤں
تو بار بار مرے آئینے سنوار مجھے
فلک کو توڑ دوں میں اپنی آہ سے لیکن
زمین والوں سے بے انتہا ہے پیار مجھے
اک اس کی ذات سے جب میرا اعتبار اٹھا
تو پھر کسی پہ بھی آیا نہ اعتبار مجھے
غزل
نہ مل سکا تری لہروں میں بھی قرار مجھے
عتیق انظر