سلگتی ریت کی قسمت میں دریا لکھ دیا جائے
مجھے ان جھیل سی آنکھوں میں رہنا لکھ دیا جائے
تری زلفوں کے سائے میں اگر جی لوں میں پل دو پل
نہ ہو پھر غم جو میرے نام صحرا لکھ دیا جائے
مرا اور اس کا ملنا اب تو نا ممکن سا لگتا ہے
اسے سورج مجھے شب کا ستارا لکھ دیا جائے
اکیلا میں ہی کیوں آخر سجاؤں پلکوں پہ تارے
کبھی اس کی بھی پلکوں پہ ستارا لکھ دیا جائے
مجھے چھوڑا ہے تپتی دھوپ میں جس شخص نے تنہا
اسے بھی غم کی دنیا میں اکیلا لکھ دیا جائے
جو شب خوں مارتا ہے میری بستی کے اجالوں پر
مقدر اس کے بھی گھر کا اندھیرا لکھ دیا جائے
کہیں بجھتی ہے دل کی پیاس اک دو گھونٹ سے انظرؔ
میں سورج ہوں مرے حصے میں دریا لکھ دیا جائے
غزل
سلگتی ریت کی قسمت میں دریا لکھ دیا جائے
عتیق انظر