نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی
مرا مقام ہے جو بھی وہ مجھ سے کم ہے ابھی
تراش اور بھی اپنے تصور رب کو
ترے خدا سے تو بہتر مرا صنم ہے ابھی
نہیں ہے غیر کی تسبیح کا کوئی امکاں
مرے لبوں پہ تو ذکر منم منم ہے ابھی
ترابؔ پر کہاں ہوتا ہے یہ خدا کا خلا
مرے وجود کے اندر کہیں عدم ہے ابھی
غزل
نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی
عطا تراب