محنت سے مل گیا جو دفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا
آزاد ہو گیا ہوں زمان و مکان سے
میں اک غلام تھا جو مدینے کے بیچ تھا
اصل سخن میں نام کو پیچیدگی نہ تھی
ابہام جس قدر تھا قرینے کے بیچ تھا
جو میرے ہم سنوں سے بڑا کر گیا مجھے
احساس کا وہ دن بھی مہینے کے بیچ تھا
کم ظرفیوں نے ظرف کو مظروف کر دیا
جس درد میں گھرا ہوں وہ سینے کے بیچ تھا
ہیں مار گنج مار کے بھی سب ڈسے ہوئے
تقسیم کا وہ زہر خزینے کے بیچ تھا
طوفان بحر خاک ڈراتا مجھے ترابؔ
اس سے بڑا بھنور تو سفینے کے بیچ تھا
غزل
محنت سے مل گیا جو دفینے کے بیچ تھا
عطا تراب