تھوڑی سی اس طرف بھی نظر ہونی چاہیے
یہ زندگی تو مجھ سے بسر ہونی چاہیے
آئے ہیں لوگ رات کی دہلیز پھاند کر
ان کے لیے نوید سحر ہونی چاہیے
اس درجہ پارسائی سے گھٹنے لگا ہے دم
میں ہوں بشر خطائے بشر ہونی چاہیے
وہ جانتا نہیں تو بتانا فضول ہے
اس کو مرے غموں کی خبر ہونی چاہیے
غزل
تھوڑی سی اس طرف بھی نظر ہونی چاہیے
عطاء الحق قاسمی