EN हिंदी
تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر | شیح شیری
tanhaiyon ke dasht mein bhage jo raat bhar

غزل

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر

عطا تراب

;

تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
وہ دن کو خاک جاگے گا جاگے جو رات بھر

فکر معاش نے انہیں قصہ بنا دیا
سجتی تھیں اپنی محفلیں آگے جو رات بھر

وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا
سلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر

کیا کیا نہ پیاس جاگے مرے دل کے دشت میں
حسرت بھی ایک آگ ہے لاگے جو رات بھر

دشت غزل میں جانے کہاں تک چلے گئے
سوئے غزال قافیہ بھاگے جو رات بھر