رک گیا آ کے جہاں قافلۂ رنگ و نشاط
کچھ قدم آگے ذرا بڑھ کے مکاں ہے میرا
اسلم محمود
تمام عمر جسے میں عبور کر نہ سکا
درون ذات مرے بے کنار سا کچھ ہے
اسلم محمود
تیغ نفس کو بہت ناز تھا رفتار پر
ہو گئی آخر مرے خوں میں نہا کر خموش
اسلم محمود
تیرے کوچے کی ہوا پوچھے ہے اب ہم سے
نام کیا ہے کیا نسب ہے ہم کہاں کے ہیں
اسلم محمود
وہ درد ہوں کوئی چارہ نہیں ہے جس کا کہیں
وہ زخم ہوں کہ ہے دشوار اندمال مرا
اسلم محمود
یہی نہیں کہ کسی یاد نے ملول کیا
کبھی کبھی تو یونہی بے سبب بھی روئے ہیں
اسلم محمود
انجانے لوگوں کو ہر سو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں
کیسی بھیڑ ہے پھر بھی خود کو تنہا تنہا دیکھ رہا ہوں
اسرار زیدی

