مژہ پہ خواب نہیں انتظار سا کچھ ہے
بہار تو نہیں عکس بہار سا کچھ ہے
مجھے ملا نہ کبھی فرش گل پہ بھی آرام
یہی لگا کہ کہیں نوک خار سا کچھ ہے
جو پاس تھا اسی سودائے سر کی نذر ہوا
نہ دھجیاں ہی بچی ہیں نہ تار سا کچھ ہے
تمام عمر جسے میں عبور کر نہ سکا
درون ذات مرے بے کنار سا کچھ ہے
گزر گئی مجھے چھو کر کسی خیال کی رو
افق سے تا بہ افق رنگ زار سا کچھ ہے
خیال و خواب ہوئے سب وصال کے لمحے
نظر میں صرف چمکتا غبار سا کچھ ہے
یہ حال ہے کہ ہواؤں سے الجھا جاتا ہوں
لہو میں اب کے عجب انتشار سا کچھ ہے

غزل
مژہ پہ خواب نہیں انتظار سا کچھ ہے
اسلم محمود