جل رہا ہوں تو عجب رنگ و سماں ہے میرا
آسماں جس کو سمجھتے ہو دھواں ہے میرا
لے گئی باندھ کے وحشت اسے صحرا کی طرف
ایک دل ہی تو تھا اب وہ بھی کہاں ہے میرا
دیکھ لے تو بھی کہ یہ آخری منظر ہے مرا
جس کو کہتے ہیں شفق رنگ زیاں ہے میرا
اپنا ہی زور تنفس نہ مٹا دے مجھ کو
ان دنوں زد پہ مری خیمۂ جاں ہے میرا
ذرۂ خاک بھی ہوتا ہے کبھی بار گراں
کبھی لگتا ہے کہ یہ سارا جہاں ہے میرا
اب افق تا بہ افق میں ہوں ہر آئینے میں
جیسے ہر سمت و جہت عکس رواں ہے میرا
رک گیا آ کے جہاں قافلۂ رنگ و نشاط
کچھ قدم آگے ذرا بڑھ کے مکاں ہے میرا
غزل
جل رہا ہوں تو عجب رنگ و سماں ہے میرا
اسلم محمود