EN हिंदी
دیکھ کے ارزاں لہو سرخئ منظر خموش | شیح شیری
dekh ke arzan lahu surKHi-e-manzar KHamosh

غزل

دیکھ کے ارزاں لہو سرخئ منظر خموش

اسلم محمود

;

دیکھ کے ارزاں لہو سرخئ منظر خموش
بازئ جاں پر مری تیغ بھی ششدر خموش

عکس مرا منتشر اور یہ عالم کہ ہے
ایک اک آئینہ چپ ایک اک پتھر خموش

تیغ نفس کو بہت ناز تھا رفتار پر
ہو گئی آخر مرے خوں میں نہا کر خموش

عرصۂ حیرت میں گم آئنہ خانے مرے
خیمۂ مژگاں میں ہیں خواب کے پیکر خموش

خوف سے سب دم بخود فکر سے چہرے اداس
موج ہوا کیوں ہے چپ کیوں ہے سمندر خموش

کوئی علامت تو ہو کوئی نشاں تو ملے
کیوں ہے لہو بے صدا ہو گئے کیوں سر خموش