کہاں بھٹکتی پھرے گی اندھیری گلیوں میں
ہم اک چراغ سر کوچۂ ہوا رکھ آئے
اسلم محمود
خطا یہ تھی کہ میں آسانیوں کا طالب تھا
سزا یہ ہے کہ مرا تیشۂ ہنر بھی گیا
اسلم محمود
میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا
عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا
اسلم محمود
مرے شوق سیر و سفر کو اب نئے اک جہاں کی نمود کر
ترے بحر و بر کو تو رکھ دیا ہے کبھی کا میں نے کھنگال کے
اسلم محمود
مری کہانی رقم ہوئی ہے ہوا کے اوراق منتشر پر
میں خاک کے رنگ غیر فانی کو اپنی تصویر کر رہا ہوں
اسلم محمود
پاؤں اس کے بھی نہیں اٹھتے مرے گھر کی طرف
اور اب کے راستہ بدلا ہوا میرا بھی ہے
اسلم محمود
رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ
خواب زندہ ہیں سو آنکھوں میں جلاتے ہیں چراغ
اسلم محمود

