EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کہاں بھٹکتی پھرے گی اندھیری گلیوں میں
ہم اک چراغ سر کوچۂ ہوا رکھ آئے

اسلم محمود




خطا یہ تھی کہ میں آسانیوں کا طالب تھا
سزا یہ ہے کہ مرا تیشۂ ہنر بھی گیا

اسلم محمود




میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا
عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا

اسلم محمود




مرے شوق سیر و سفر کو اب نئے اک جہاں کی نمود کر
ترے بحر و بر کو تو رکھ دیا ہے کبھی کا میں نے کھنگال کے

اسلم محمود




مری کہانی رقم ہوئی ہے ہوا کے اوراق منتشر پر
میں خاک کے رنگ غیر فانی کو اپنی تصویر کر رہا ہوں

اسلم محمود




پاؤں اس کے بھی نہیں اٹھتے مرے گھر کی طرف
اور اب کے راستہ بدلا ہوا میرا بھی ہے

اسلم محمود




رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ
خواب زندہ ہیں سو آنکھوں میں جلاتے ہیں چراغ

اسلم محمود