انجانے لوگوں کو ہر سو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں
کیسی بھیڑ ہے پھر بھی خود کو تنہا تنہا دیکھ رہا ہوں
دیواروں سے روزن روزن کیا کیا منظر ابھرے ہیں
سورج کو بھی دور افق پر جلتا بجھتا دیکھ رہا ہوں
جس کو اپنا روپ دیا اور جس کے ہر دم خواب بنے
کب سے میں اس آنے والے کل کا رستا دیکھ رہا ہوں
صبحوں کی پیشانی پر یہ کیسی سیاہی پھیلی ہے
اپنی انا کو ہر لمحے سولی پر چڑھتا دیکھ رہا ہوں
آئینے میں کیا دیکھوں جب ہر چہرہ آئینہ ہے
اس کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اپنا چہرہ دیکھ رہا ہوں
غزل
انجانے لوگوں کو ہر سو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں
اسرار زیدی