تمام کھیل تماشوں کے درمیان وہی
وہ میرا دشمن جاں یعنی مہربان وہی
ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے
مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی
سبھی کو اس کی اذیت کا ہے یقین مگر
ہمارے شہر میں ہے رسم امتحان وہی
تمہارے درد سے جاگے تو ان کی قدر کھلی
وگرنہ پہلے بھی اپنے تھے جسم و جان وہی
وہی حروف وہی اپنے بے اثر فقرے
وہی بجھے ہوئے موضوع اور بیان وہی
غزل
تمام کھیل تماشوں کے درمیان وہی
اسلم عمادی