کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو
اب آسمان سخن پر ستارہ کیوں کر ہو
اب اس کے رنگ میں ہے بیشتر تغافل سا
اب اس سے طور شناسی کا چارہ کیوں کر ہو
وہ سچ سے خوش نہ اگر ہو تو جھوٹ بولیں گے
کہ وہ جو روٹھے تو اپنا گزارہ کیوں کر ہو
انہیں یہ فکر کہ دل کو کہاں چھپا رکھیں
ہمیں یہ شوق کہ دل کا خسارہ کیوں کر ہو
عروج کیسے ہو ذوق جنوں کو اب اسلمؔ
سکوں کا آئنہ اب پارہ پارہ کیوں کر ہو
غزل
کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو
اسلم عمادی