اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو
ارشد علی خان قلق
بعد میرے جو کیا شاد کسی کو تو کہا
ہم کو اس وقت وہ ناشاد بہت یاد آیا
ارشد علی خان قلق
بہار آتے ہی زخم دل ہرے سب ہو گئے میرے
ادھر چٹکا کوئی غنچہ ادھر ٹوٹا ہر اک ٹانکا
ارشد علی خان قلق
بنا کر تل رخ روشن پر دو شوخی سے سے کہتے ہیں
یہ کاجل ہم نے یارا ہے چراغ ماہ تاباں پر
ارشد علی خان قلق
برابر ایک سے مصرع نظر آتے ہیں ابرو کے
توارد کہئے یا ہے ایک میں مضمون چوری کا
ارشد علی خان قلق
بے ابر رند پیتے نہیں واعظو شراب
کرتے ہیں یہ گناہ بھی رحمت کے زور پر
ارشد علی خان قلق
بے سبب غنچے چٹکتے نہیں گلزاروں میں
پھر رہا ہے یہ ڈھنڈھورا تری رعنائی کا
ارشد علی خان قلق

