غزل میں جان پڑی گفتگو میں پھول کھلے
مری نوا سے دیار نمو میں پھول کھلے
مرے ہی شعر اچھالے مرے حریفوں نے
مرے طفیل زبان عدو میں پھول کھلے
انہیں یہ زعم کہ بے سود ہے صدائے سخن
ہمیں یہ ضد کہ اسی ہاؤ ہو میں پھول کھلے
یہ کس کو یاد کیا روح کی ضرورت نے
یہ کس کے نام سے میرے لہو میں پھول کھلے
بہار اب کے نہ ٹھہری کسی بھی قریے میں
نہ باغ خواب نہ صحرائے ہو میں پھول کھلے
زمین کوفہ کو یوں ہی خراب رہنا تھا
تو کس لیے یہ سنان و گلو میں پھول کھلے
مرے جنوں سے پس دشت جاں غبار اٹھا
مرے لہو سے در روبرو میں پھول کھلے
کبھی کمند کوئی موج ڈال دے ارشدؔ
کبھی ہوائے سر آب جو میں پھول کھلے
غزل
غزل میں جان پڑی گفتگو میں پھول کھلے
ارشد عبد الحمید