مرے خیمے خستہ حال میں ہیں مرے رستے دھند کے جال میں ہیں
مجھے شام ہوئی ہے جنگل میں مرے سارے ستارے زوال میں ہیں
مجھے رنگوں سے کوئی شغل نہیں مجھے خوشبو میں کوئی دخل نہیں
مرے نام کا کوئی نخل نہیں مرے موسم خاک ملال میں ہیں
آکاش ہے قدموں کے نیچے دریا کا پانی سر پر ہے
اک مچھلی ناؤ پہ بیٹھی ہے اور سب مچھوارے جال میں ہیں
یہ دنیا اکبر ظلموں کی ہم مجبوری کی انارکلی
ہم دیواروں کے بیچ میں ہیں ہم نرغۂ جبر و جلال میں ہیں
مرے دل کے نور سے بڑھ کے نہیں مری جاں کے سرور سے بڑھ کے نہیں
جو ماہ و مہر فلک پر ہیں جو لعل و گہر پاتال میں ہیں
اک مغرب آیا مشرق میں مری فوج کے ٹکڑے کر ڈالے
اب آدھے سپاہی جنوب میں ہیں اور آدھے سپاہی شمال میں ہیں
ایمان کی چھاگل پھوٹ گئی اعمال کی لاٹھی ٹوٹ گئی
ہم ایسے گلہ بانوں کے سب ناقے خوف قتال میں ہیں
غزل
مرے خیمے خستہ حال میں ہیں مرے رستے دھند کے جال میں ہیں
ارشد عبد الحمید