EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بت پرستی میں بھی بھولی نہ مجھے یاد خدا
ہاتھ میں سبحہ گلے میں مرے زنار رہا

ارشد علی خان قلق




چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار
شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا

ارشد علی خان قلق




چھیڑا اگر مرے دل نالاں کو آپ نے
پھر بھول جائیے گا بجانا ستار کا

ارشد علی خان قلق




دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر
دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے

ارشد علی خان قلق




دل خستہ ہو تو لطف اٹھے کچھ اپنی غزل کا
مطلب کوئی کیا سمجھے گا مستوں کی زٹل کا

ارشد علی خان قلق




گردش میں ساتھ ان آنکھوں کا کوئی نہ دے سکا
دن رہ گیا کبھی تو کبھی رات رہ گئی

ارشد علی خان قلق




گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے

ارشد علی خان قلق