بت پرستی میں بھی بھولی نہ مجھے یاد خدا
ہاتھ میں سبحہ گلے میں مرے زنار رہا
ارشد علی خان قلق
چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار
شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا
ارشد علی خان قلق
چھیڑا اگر مرے دل نالاں کو آپ نے
پھر بھول جائیے گا بجانا ستار کا
ارشد علی خان قلق
دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر
دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے
ارشد علی خان قلق
دل خستہ ہو تو لطف اٹھے کچھ اپنی غزل کا
مطلب کوئی کیا سمجھے گا مستوں کی زٹل کا
ارشد علی خان قلق
گردش میں ساتھ ان آنکھوں کا کوئی نہ دے سکا
دن رہ گیا کبھی تو کبھی رات رہ گئی
ارشد علی خان قلق
گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے
ارشد علی خان قلق

