فصیل صبر میں روزن بنانا چاہتی ہے
سپاہ طیش مرے دل کو ڈھانا چاہتی ہے
لپٹ لپٹ کے شجر کو لبھانا چاہتی ہے
ہر ایک بیل محبت جتانا چاہتی ہے
ریال خواب لٹاتی ہے دونوں ہاتھوں سے
امیر شوق مجھے آزمانا چاہتی ہے
مرا ہی سینہ کشادہ ہے چاہتوں کے تئیں
تفنگ درد مرا ہی نشانا چاہتی ہے
میں اپنے آپ کو بھی دیکھنے سے قاصر ہوں
یہ شام ہجر مجھے کیا دکھانا چاہتی ہے
کھلا کہ ساحل دریا پہ میں پہنچ ہی گیا
تو یہ انا مجھے صحرا میں لانا چاہتی ہے
نمو کو روک قلم کو لگام دے ارشدؔ
کہ یہ غزل ترے پردے اٹھانا چاہتی ہے
غزل
فصیل صبر میں روزن بنانا چاہتی ہے
ارشد عبد الحمید