مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا
ایک دروازہ دعا کا تھا سو دیوار کیا
خواب آئندہ ترے لمس نے سرشار کیا
خشک بادل تھے ہمیں تو نے گہر بار کیا
دیکھنے کی تھی نگاہوں میں انا کی صورت
اس گرفتار نے جب مجھ کو گرفتار کیا
مدتوں گھاؤ کیے جس کے بدن پر ہم نے
وقت آیا تو اسی خواب کو تلوار کیا
میری چاہت نے عجب رنگ دکھایا مجھ کو
کشمکش سے مری آنکھوں کو گراں بار کیا
اک مسیحا کو مرا چشم نما ٹھہرایا
ایک قاتل کو مرا آئینہ بردار کیا
کاٹ کر پھینک دی سنسار کی کوچیں ہم نے
صبر کو پھول کیا پھول کو تلوار کیا

غزل
مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا
ارشد عبد الحمید