خاموشی تک تو ایک صدا لے گئی مجھے
پھر اس سے آگے طبع رسا لے گئی مجھے
کیا آنکھ تھی کہ موج بقا کی طرح ملی
کیا موج تھی کہ مثل فنا لے گئی مجھے
مٹی کو چوم لینے کی حسرت ہی رہ گئی
ٹوٹا جو شاخ سے تو ہوا لے گئی مجھے
دشت جنوں سے آئی تھی بستی میں باد شوق
لوٹی تو اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے
اے جرات فرار ترا شکریہ کہ تو
رشتوں کے پیچ و خم سے بچا لے گئی مجھے
غزل
خاموشی تک تو ایک صدا لے گئی مجھے
ارشد عبد الحمید