پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر
ڈس لے کہیں تمہیں کو نہ موقع نکال کر
رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر
شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں
کچھ اس قدر دراز نہ دست سوال کر
میری طرح نہ تو بھی گھٹن کا شکار ہو
خود اپنی خواہشوں کو نہ یوں پائمال کر
جو آپ کی نگاہ میں اتنا بلند ہے
دیکھا ہے اس کا ظرف بھی میں نے کھنگال کر
لمحوں کی تند موج سے بچنا محال ہے
رکھو گے کیسے یاد کی خوشبو سنبھال کر
ارماںؔ بس ایک لذت اظہار کے سوا
ملتا ہے کیا خیال کو لفظوں میں ڈھال کر
غزل
پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
ارمان نجمی