EN हिंदी
جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی | شیح شیری
jo apni KHwahishon mein tu ne kuchh kami kar li

غزل

جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی

عارف شفیق

;

جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی
تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی

تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی

پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں
ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

جو سچی بات تھی وہ میں نے برملا کہہ دی
یوں اپنے دوستوں سے میں نے دشمنی کر لی

مشینی عہد میں احساس زندگی بن کر
دکھی دلوں کے لیے میں نے شاعری کر لی

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی