گھنی آبادیوں کی بے امانی کا تماشا کر
نکل کر گھر سے مرگ ناگہانی کا تماشا کر
جو زندہ آگ میں ڈالے گئے لاشیں نہ گن ان کی
جو بچ نکلے ہیں ان کی سخت جانی کا تماشا کر
جو تخت و تاج کے مالک ہیں کیا وہ معتبر بھی ہیں
شر انگیزی میں ڈوبی حکمرانی کا تماشا کر
بچا کیا رہ گیا کالک بھرے جھلسے مکانوں میں
اجاڑی بستیوں کی بے نشانی کا تماشا کر
نئی تاریخ کے صفحوں پہ لکھا جا رہا ہے کیا
حروف قہر کی آتش فشانی کا تماشا کر
جو دل میں ہے اسے نا گفتہ رہنے دے تو بہتر ہے
بدلتی صورت حرف و معانی کا تماشا کر
نہ کوئی خواب باقی ہے نہ آنسو خشک آنکھوں میں
تہی دستوں کی گم صم نوحہ خوانی کا تماشا کر
ہر اک شب شکر کر تیری ابھی گردن سلامت ہے
ہر اک دن سیل خوں کی بیکرانی کا تماشا کر
قیامت سر تک آ پہنچی ہے رکھ لے ہاتھ آنکھوں پر
متاع زندگی کی رائیگانی کا تماشا کر
غزل
گھنی آبادیوں کی بے امانی کا تماشا کر
ارمان نجمی