تو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا
میں کسی قبر کے نشاں جیسا
میں نے ہر حال میں کیا ہے شکر
اس نے رکھا مجھے جہاں جیسا
ہو گئی وہ بہن بھی اب رخصت
پیار جس نے دیا تھا ماں جیسا
فاصلہ کیوں دلوں میں آیا ہے
گھر کے آنگن کے درمیاں جیسا
میرے دل کو ملا نہ لفظ کوئی
میرے اشکوں کے ترجماں جیسا
میرے اک شعر میں سمایا ہے
کرب صدیوں کی داستاں جیسا
شہر میں ایک مجھ کو دکھلا دو
تم مرے گاؤں کے جواں جیسا
جھیل سی ان اداس آنکھوں میں
عکس تھا نیلے آسماں جیسا
مجھ کو ویسا خدا ملا بالکل
میں نے عارفؔ کیا گماں جیسا
غزل
تو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا
عارف شفیق