میرے ذہن و دل میں فکر و فن میں تھا
نیم کا وہ پیڑ جو آنگن میں تھا
جس پہ لکھا تھا مرا نام و نسب
قید میں مٹی کے اس برتن میں تھا
ایک وہ ہر دشت میں سیراب تھا
ایک میں پیاسا ہر اک ساون میں تھا
دیکھ کر بھی جو نہ دیکھا جا سکا
عکس آرا وہ ہر اک درپن میں تھا
کہہ نہ پایا جانے کیوں اک حرف بھی
جانے کیا اس آدمی کے من میں تھا
جس کو کوئی نام دے سکتا نہیں
وہ بلاوا اس پرائے پن میں تھا
آندھیاں سب کچھ اڑا کر لے گئیں
پیڑ پر پتہ نہ پھل دامن میں تھا
جا بجا قوس قزح کی چھوٹ تھی
اک طلسم آباد پیراہن میں تھا
چھین کر شادابؔ کوئی لے گیا
اک انوکھا سکھ جو گھر آنگن میں تھا
غزل
میرے ذہن و دل میں فکر و فن میں تھا
عقیل شاداب