EN हिंदी
اثر مری زبان میں نہیں رہا | شیح شیری
asar meri zaban mein nahin raha

غزل

اثر مری زبان میں نہیں رہا

عقیل شاداب

;

اثر مری زبان میں نہیں رہا
وہ تیر اب کمان میں نہیں رہا

ہے پتھروں کا قرض اس کے دوش پر
جو کانچ کے مکان میں نہیں رہا

الاؤ سرد ہو گئے حیات کے
رچاؤ داستان میں نہیں رہا

تھا جس پہ میری زندگی کا انحصار
اسی کا نام دھیان میں نہیں رہا

گمان ہی اثاثہ تھا یقین کا
یقین ہی گمان میں نہیں رہا

ہوا جو سہل اس کے گھر کا راستہ
مزہ ہی کچھ تکان میں نہیں رہا

نہ کی کبھی بھی فکر میں نے سود کی
کبھی بھی میں زیان میں نہیں رہا

وہ کھو گیا غبار گرد‌ راہ میں
جو شخص امتحان میں نہیں رہا

خموشیوں نے بھر دیا خلاؤں کو
سخن وہ درمیان میں نہیں رہا

تڑپ اٹھے جسے خریدنے کو دل
وہ مال ہی دکان میں نہیں رہا