کتنے سوال سب کی نگاہوں میں رکھ دیئے
گھر کے سبھی چراغ ہواؤں میں رکھ دیئے
یہ انقلاب گردش دوراں تو دیکھیے
اجسام کیسے کیسی قباؤں میں رکھ دیئے
محفل میں شعر ہی نہیں کچھ روشنی بہ دوش
انوار ہم نے دل کی فضاؤں میں رکھ دیئے
ہر شخص چاہتا ہے کہ ہوں اس پہ آشکار
اسرار تو نے کیسے گناہوں میں رکھ دیئے
فطرت کا یہ ستم بھی ہے دانشؔ عجیب چیز
سر کیسے کیسے کیسی کلاہوں میں رکھ دیئے

غزل
کتنے سوال سب کی نگاہوں میں رکھ دیئے
عقیل دانش