کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
لبوں کا خشک ہو جانا بھی ہے آنکھوں کا تر ہونا
غضب مل کر جدا مجھ سے ترا او فتنہ گر ہونا
ستم نالوں کا پر تاثیر ہو کر بے اثر ہونا
جگر میں درد لب پر نالۂ وحشت اثر ہونا
عیاں کرتا ہے اک رشک پری کا دل میں گھر ہونا
غضب نالہ کشی اک صاحب عصمت کے کوچہ میں
ستم اے دل کسی پردہ نشیں کا پردہ در ہونا
وہ ان کا چپکے چپکے مسکرانا خون رونے پر
وہ میرا دل ہی دل میں واصف رنگ اثر ہونا
جو تنہا پاس منزل دل کو شایاں ہے محبت میں
تو آنکھوں کو ہے لازم دیدۂ حسرت نگر ہونا
قیامت تھا ستم تھا قہر تھا خلوت میں او ظالم
وہ شرما کر ترا میری بغل میں جلوہ گر ہونا
ستم کی جور کی بیداد کی کافی شہادت ہے
جدائی میں مرا بیتاب بے خود بے خبر ہونا

غزل
کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
انوری جہاں بیگم حجاب