EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تھک کے بیٹھے ہو در صومعہ پر کیا انورؔ
دو قدم اور کہ یہ خانہ خمار رہا

انور دہلوی




ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
آگ دل میں دبائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی




وہ جو گردن جھکائے بیٹھے ہیں
حشر کیا کیا اٹھائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی




یہ دل کا کرب لبوں تک کبھی نہ آئے گا
مرے لیے یہ خموشی کا ارتقا ہی سہی

انوار فیروز




اب نام نہیں کام کا قائل ہے زمانہ
اب نام کسی شخص کا راون نہ ملے گا

انور جلال پوری




چاہو تو مری آنکھوں کو آئینہ بنا لو
دیکھو تمہیں ایسا کوئی درپن نہ ملے گا

انور جلال پوری




کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے
زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے

انور جلال پوری