پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے
متاع زندگانی ایک دن ہم بھی لٹا دیں گے
تم اپنے سامنے کی بھیڑ سے ہو کر گزر جاؤ
کہ آگے والے تو ہرگز نہ تم کو راستہ دیں گے
جلائے ہیں دیئے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو
یہ جھونکے ایک پل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے
کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے
زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے
گلہ شکوہ حسد کینہ کے تحفے میری قسمت ہیں
مرے احباب اب اس سے زیادہ اور کیا دیں گے
مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا
یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے پہلے تھکا دیں گے
اگر تم آسماں پر جا رہے ہو شوق سے جاؤ
مرے نقش قدم آگے کی منزل کا پتا دیں گے
غزل
پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے
انور جلال پوری