شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر پھرتے ہیں مایوسی میں
کاش کوئی انورؔ سے پوچھے ایسے بے گھر کتنے ہیں
انور جمال انور
تمہارے دل میں کوئی اور بھی ہے میرے سوا
گمان تو ہے ذرا سا مگر یقین نہیں
انور جمال انور
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
انور مسعود
آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
انور مسعود
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
انور مسعود
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا
انور مسعود
اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ
انور مسعود

