شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی
بکھر گیا جو ہوا سے وہ نقش پا ہی سہی
یہ حکم ہے کہ گئے موسموں کو یاد کروں
نئی رتوں کا تجسس مجھے ملا ہی سہی
زمیں کے بعد ابھی آسماں کے دکھ بھی سہوں
مرے لیے یہ سزا ہے بڑی عطا ہی سہی
چراغ کہہ کے مرا نور مجھ سے چھین لیا
چراغ پھر بھی رہوں گا بجھا ہوا ہی سہی
سجا لیے ہیں مصائب کے نیر آنکھوں میں
سکوں کی نیند نہیں ہے تو رتجگا ہی سہی
اے دھڑکنوں کو نیا نور بخشنے والے
میں نور سے ہی تہی تو مری خطا ہی سہی
حقیقتوں کے بدن پر کوئی لبادہ نہیں
اگر یہ سچ کی سزا ہے تو پھر سزا ہی سہی
یہ دل کا کرب لبوں تک کبھی نہ آئے گا
مرے لیے یہ خموشی کا ارتقا ہی سہی
جہاں کے درد کو انوارؔ نے سمیٹ لیا
میں اک خوشی کی تمنا میں مر مٹا ہی سہی

غزل
شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی
انوار فیروز