تیشہ بکف کو آئینہ گر کہہ دیا گیا
جو عیب تھا اسے بھی ہنر کہہ دیا گیا
سایہ ہے پیار کا نہ محبت کی دھوپ ہے
دیوار کے حصار کو گھر کہہ دیا گیا
ان کے ہر ایک گوشے میں صدیاں مقیم ہیں
ٹوٹی عمارتوں کو کھنڈر کہہ دیا گیا
خودداریٔ انا ہے نہ پندار زیست ہے
شانوں کے سارے بوجھ کو سر کہہ دیا گیا
آنگن میں ہر مکاں کے اندھیروں کا راج ہے
محلوں کی روشنی کو سحر کہہ دیا گیا
کچھ خوف جاں ہے اور نہ کچھ فکر ہجر یار
خوش گامیوں کو رنج سفر کہہ دیا گیا
حیرت دروغ مصلحت آمیز پر ہو کیا
بے برگ جھاڑیوں کو شجر کہہ دیا گیا
دیکھا کہاں ہے آگ کے دریاؤں کا سفر
جگنو اڑے تو رقص شرر کہہ دیا گیا
کچھ احترام و حسن عقیدت کے جوش میں
ہر نقش آب نقش حجر کہہ دیا گیا
کھل جائے گا بھرم تری میزان عدل کا
دو ایک حرف جرم اگر کہہ دیا گیا
نا آشنائے نقش کف پائے عام ہے
وہ راستہ بھی راہ گزر کہہ دیا گیا
یوں خوش ہیں جیسے واقعتاً ہو گئے خدا
مجبوریوں کے زیر اثر کہہ دیا گیا
انجمؔ یہاں تک آنے میں کیا کیا گزر گئی
مہر سر مژہ بھی گہر کہہ دیا گیا
غزل
تیشہ بکف کو آئینہ گر کہہ دیا گیا
انجم عرفانی