EN हिंदी
بڑی فرض آشنا ہے صبا کرے خوب کام حساب کا | شیح شیری
baDi farz-ashna hai saba kare KHub kaam hisab ka

غزل

بڑی فرض آشنا ہے صبا کرے خوب کام حساب کا

انجم عرفانی

;

بڑی فرض آشنا ہے صبا کرے خوب کام حساب کا
پھر اڑا کے لے گئی اک ورق مری زندگی کی کتاب کا

کہوں کیا کہ دشت حیات میں رہا سلسلہ وہ سراب کا
کبھی حوصلہ ہی نہ کر سکی مری آنکھ دریا کے خواب کا

نہ عطائے دختر رز ہے یہ نہ ہے فیض ساقیٔ مے نفس
جو چڑھے تو پھر نہ اتر سکے یہ نشہ ہے فن کی شراب کا

سر راہ مل کے بچھڑ گئے تھا بس ایک پل کا وہ حادثہ
مرے صحن دل میں مقیم ہے وہی ایک لمحہ عذاب کا

مرے ساتھ ساتھ سفر میں ہے مرے گھر کی ساری ہماہمی
سرگوش قہقہے رس بھرے سردوش پھول گلاب کا

دو فرشتہ دست بلا لیے دو چھلکتے جام تکا کئے
مرے ہم رکاب وہ موج گل وہی سیل چشم پر آب کا

میں اگرچہ کر بھی چکا رقم ادھر ایک دفتر رنج و غم
مگر انتظار ہے دم بہ دم مجھے پہلے خط کے جواب کا

یہ جو میرے ساغر دل میں ہے مے فن ہے خوں کی کشید ہے
یہی ایک عمر کا ماحصل یہی توشہ خانہ خراب کا

ذرا سوچ انجمؔ ناتواں یہ وفا کا ذکر کہاں کہاں
سر بزم کر نہ اسے بیاں یہ سبق ہے صرف نصاب کا