غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا
جسے بھی خندہ بہ لب دیکھا غم زدا نکلا
اب احتیاط بھی اور کیا ہو بے لباس تو ہوں
اک آستین سے مانا کہ اژدہا نکلا
مرے خلوص پہ شک کی تو کوئی وجہ نہیں
مرے لباس میں خنجر اگر چھپا نکلا
لگا جو پیٹھ میں نیزہ تو سمجھے دشمن ہے
مگر پلٹ کے جو دیکھا تو آشنا نکلا
مرے لہو سے ہے رنگیں جبین صبح تو کیا
چلو کہ ظلمت شب کا تو حوصلا نکلا
یہ ہاتھ راکھ میں خوابوں کی ڈالتے تو ہو
مگر جو راکھ میں شعلہ کوئی دبا نکلا
سنا تھا حد تبسم ہے آنسوؤں سے قریب
بڑھے جو آگے تو برسوں کا فاصلا نکلا
وہ ایک حرف تمنا جو کہتے ڈرتے تھے
زباں پہ آیا تو ان کا ہی مدعا نکلا
کلاہ کج کیے دن بھر جو شخص پھرتا تھا
گلی میں شام کو دیکھا تو وہ گدا نکلا
طلوع صبح نعیمیؔ جہاں سے ہونی تھی
اسی افق سے اندھیروں کا سلسلا نکلا
غزل
غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا
عبد الحفیظ نعیمی