اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا
وہ جگنو تھا اس سے ہمیں اک ستارہ بہت یاد آیا
یہی شام کا وقت تھا گھر سے نکلے کہ یاد آ گیا تھا
بہت دن ہوئے آج وہ سب دوبارہ بہت یاد آیا
سحر جب ہوئی تو بہت خامشی تھی زمیں شبنمی تھی
کبھی خاک دل میں تھا کوئی شرارہ بہت یاد آیا
برستے تھے بادل دھواں پھیلتا تھا عجب چار جانب
فضا کھل اٹھی تو سراپا تمہارا بہت یاد آیا
کبھی اس کے بارے میں سوچا نہ تھا اور سوچا تو دیکھو
سمندر کوئی بے صدا بے کنارہ بہت یاد آیا
غزل
اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا
عبد الحمید