پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں
دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں
ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں
بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا
میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں
دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن
دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ بھرتا ہی نہیں
کیا لیے پھرتا ہوں میں آب سراب آنکھوں میں
ڈوبتا ہی نہیں کوئی کہ ابھرتا ہی نہیں
یہ پگھلتی ہی نہیں شمع کہ جلتی ہی نہیں
یہ بکھرتا ہی نہیں دشت کہ مرتا ہی نہیں
کچھ نہ کہیے تو بھلا یوں ہی سمجھتے رہیے
پوچھ لیجے تو وہ عیبوں سے مکرتا ہی نہیں
غزل
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
عبد الحمید