کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے
یہ دریا اتنا پانی پی کے پیاسا کیسا لگتا ہے
ہم اس سے تھوڑی دوری پر ہمیشہ رک سے جاتے ہیں
نہ جانے اس سے ملنے کا ارادہ کیسا لگتا ہے
میں دھیرے دھیرے ان کا دشمن جاں بنتا جاتا ہوں
وہ آنکھیں کتنی قاتل ہیں وہ چہرہ کیسا لگتا ہے
زوال جسم کو دیکھو تو کچھ احساس ہو اس کا
بکھرتا ذرہ ذرہ کوئی صحرا کیسا لگتا ہے
فلک پر اڑتے جاتے بادلوں کو دیکھتا ہوں میں
ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تماشا کیسا لگتا ہے
غزل
کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے
عبد الحمید