بہتے ہوئے اشکوں کی روانی نہیں لکھی
میں نے غم ہجراں کی کہانی نہیں لکھی
جس دن سے ترے ہاتھ سے چھوٹا ہے مرا ہاتھ
اس دن سے کوئی شام سہانی نہیں لکھی
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
الفاظ سے کاغذ پہ سجائی ہے جو دنیا
جز اپنے کوئی چیز بھی فانی نہیں لکھی
تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی
سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی
غزل
بہتے ہوئے اشکوں کی روانی نہیں لکھی
عنبرین حسیب عنبر