EN हिंदी
اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے | شیح شیری
is aarzi duniya mein har baat adhuri hai

غزل

اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے

عنبرین حسیب عنبر

;

اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے
ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے

کچھ دیر کی رم جھم کو معلوم نہیں شاید
جل تھل نہ ہو آنگن تو برسات ادھوری ہے

کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی
ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے

محروم تمازت دن شب میں بھی نہیں خنکی
یہ کیسا تعلق ہے ہر بات ادھوری ہے