اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے
ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے
کچھ دیر کی رم جھم کو معلوم نہیں شاید
جل تھل نہ ہو آنگن تو برسات ادھوری ہے
کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی
ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے
محروم تمازت دن شب میں بھی نہیں خنکی
یہ کیسا تعلق ہے ہر بات ادھوری ہے
غزل
اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے
عنبرین حسیب عنبر