جب سے زندگی ہوا دل گردش تقدیر کا
روز بڑھ جاتا ہے اک حلقہ مری زنجیر کا
میرے حصہ میں کہاں تھیں عجلتوں کی منزلیں
میرے قدموں کو سدا رستہ ملا تاخیر سے
کس لیے بربادیوں کا دل کو ہے اتنا ملال
اور کیا اندازہ ہو خمیازۂ تعمیر کا
خون دل جن کی گواہی میں ہوا نذر وفا
رنگ تو وہ اڑ گئے اب کیا کروں تصویر کا
میں نے سمجھا تیری چاہت کو فقط انعام زیست
مجھ کو اندازہ نہ تھا اس جرم اس تعزیر کا
ایک لب تک ہی نہ پہنچی جو دعا تھی مستجاب
کس قدر چرچا ہوا ہے آہ بے تاثیر کا
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
غزل
جب سے زندگی ہوا دل گردش تقدیر کا
عنبرین حسیب عنبر