دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے
مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی
ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے
اس سرزمیں سے تھی جو محبت وہ کیا ہوئی
بچوں کے لب پہ تھے جو ترانے کہاں گئے
اپنی خطا پہ سر کو جھکایا ہے آج کیوں
ازبر جو آپ کو تھے بہانے کہاں گئے
پتھر سماعتوں سے زباں گنگ ہو گئی
ہم بھی گئے تو حال سنانے کہاں گئے
بے مہری حیات تجھے کچھ خبر بھی ہے
دیکھے گئے جو خواب سہانے کہاں گئے
بچپن سہیلیاں وہ ہمہ وقت کی ہنسی
عنبرؔ وہ زندگی کے خزانے کہاں گئے
غزل
دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
عنبرین حسیب عنبر