جسم و جاں میں در آئی اس قدر اذیت کیوں
زندگی بھلا تجھ سے ہو رہی ہے وحشت کیوں
سلسلہ محبت کا صرف خواب ہی رہتا
اپنے درمیاں آخر آ گئی حقیقت کیوں
فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں
یہ عجیب الجھن ہے کس سے پوچھنے جائیں
آئنے میں رہتی ہے صرف ایک صورت کیوں
کر و فر سے نکلے تھے جو سمیٹنے دنیا
بھر کے اپنے دامن میں آ گئے ندامت کیوں
آپ سے مخاطب ہوں آپ ہی کے لہجے میں
پھر یہ برہمی کیسی اور یہ شکایت کیوں
غزل
جسم و جاں میں در آئی اس قدر اذیت کیوں
عنبرین حسیب عنبر