کب موسم بہار پکارا نہیں کیا
ہم نے ترے بغیر گوارہ نہیں کیا
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
مل جائے خاک میں نہ کہیں اس خیال سے
آنکھوں نے کوئی عشق ستارا نہیں کیا
اک عمر کے عذاب کا حاصل وہیں بہشت
دو چار دن جہاں پہ گزارا نہیں کیا
اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا
اب ہنس کے تیرے ناز اٹھائیں تو کس لیے
تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا
غزل
کب موسم بہار پکارا نہیں کیا
عنبرین حسیب عنبر