اب اسیری کی یہ تدبیر ہوئی جاتی ہے
ایک خوشبو مری زنجیر ہوئی جاتی ہے
اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے
اس کی پوشاک نگاہوں کا عجب ہے یہ فسوں
خوش بیانی مری تصویر ہوئی جاتی ہے
اب وہ دیدار میسر ہے نہ قربت نہ سخن
اک جدائی ہے جو تقدیر ہوئی جاتی ہے
ان کو اشعار نہ سمجھیں کہیں دنیا والے
یہ تو حسرت ہے جو تحریر ہوئی جاتی ہے
غزل
اب اسیری کی یہ تدبیر ہوئی جاتی ہے
عنبرین حسیب عنبر