ہر طرف اس کے سنہرے لفظ ہیں پھیلے ہوئے
اور ہم کاجل کی اک تحریر میں ڈوبے ہوئے
چاندنی کے شہر میں ہم راہ تھا وہ بھی مگر
دور تک خاموشیوں کے ساز تھے بجتے ہوئے
ہنس رہا تھا وہ ہری رت کی سہانی چھاؤں میں
دفعتاً ہر اک شجر کے پیرہن میلے ہوئے
آج اک معصوم بچی کی زباں کھینچی گئی
میری بستی میں اندھیرے اور بھی گہرے ہوئے
ہر گلی میں تھیں سیہ پرچھائیوں کی یورشیں
شب کئی گونگے ملک ہر چھت پہ تھے بیٹھے ہوئے
سب ادائیں وقت کی وہ جانتا ہے اس لیے
ٹاٹ کے نیچے سنہرا تاج ہے رکھے ہوئے
سوپ کے دانے کبوتر چک رہا تھا اور وہ
صحن کو مہکا رہی تھی سنتیں پڑھتے ہوئے
رات عنبرؔ کہکشاں سے دوب یہ کہنے لگی
چھاؤں میں میری ہزاروں چاند ہیں سوئے ہوئے

غزل
ہر طرف اس کے سنہرے لفظ ہیں پھیلے ہوئے
عنبر بہرائچی